دہلی فسادات رپورٹ میں اقلیتی ادارہ نے پولیس کے کردار پر سوال کھڑے کیے : الجزیرہ_اردو
دہلی فسادات رپورٹ میں اقلیتی ادارہ نے پولیس کے کردار پر سوال کھڑے کیے : الجزیرہ_اردو
دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ میں، کئی دہائیوں میں بدترین تشدد سے متعلق کیسوں میں پولیس کی بے عملی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
کمیشن کی حقائق تلاش کرنے والی ٹیم نے بتایا کہ مجموعی طور پر 11 مساجد ، 5 دینی مدارس ، ایک مزار اور ایک قبرستان پر حملہ کر انھیں نقصان پہنچایا گیا ہے ۔ ہندوستانی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کو فروغ دینے کے لیے حکومت ہی کی مقرر کردہ کمیشن نے کہا کہ پولیس دہلی میں پرتشدد فسادات کے دوران، شہریت کے نئے قانون کے خلاف مہم چلانے والے مسلمانوں کی حفاظت میں ناکام رہی۔
دہلی کے اقلیتی کمیشن (ڈی ایم سی) نے جمعرات کے روز کہا کہ ہندوستان کے دارالحکومت میں بدترین فرقہ وارانہ تشدد میں کم از کم 53 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے ہیں، اس سے پہلے 1984 میں سکھ اقلیتی برادری کے 3،000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ کمیشن نے کہا کہ فسادات کے دنوں میں مسلمان گھروں ، دکانوں اور گاڑیوں کو منتخب نشانہ بنایا گیا جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان کے دورے پر تھے۔
یہ تشدد فروری میں اس وقت شروع ہوا جب برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں اور ان کے حامیوں نے نئے شہریت قانون کے خلاف منظم طریقے سے شمال مشرق دہلی میں پرامن دھرنوں پر حملہ کیا۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) نے دسمبر میں ہندوستان کی پارلیمنٹ کے ذریعہ ، مسلمانوں کو چھوڑ کر ہمسایہ ممالک سے تعلق رکھنے والے مذہبی اقلیتوں کے لیے شہریت کا راستہ نکالا ۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ قانون ملک کے سیکولر آئین کی روح کے خلاف ہے۔
• امتیازی سلوک :
یہ قانون ، جس کو اقوام متحدہ نے "بنیادی طور پر امتیازی سلوک" کہا تھا ، اس نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا ، زیادہ تر مسلم خواتین ہی قیادت میں تھیں اور انہوں نے 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، سب سے بڑا سیاسی چیلنج کھڑا کردیا تھا.
اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے، کمیشن کی رپورٹ میں دی گئی سفارشات پابند نہیں ہیں۔
ایسا کہا جا رہا کہ " انتظامیہ اور پولیس کے تعاون سے مظاہروں کو کچلنے کے لیے ، سی اے اے حامی مظاہرین کے خلاف انتقامی منصوبے، بڑے پیمانے پر تشدد کو جنم دینے کے لیے تیار کیے گئے تھے ۔"
کمیشن نے کہا کہ پولیس نے مسلمانوں پر تشدد کا الزام عائد کیا حالاں کہ وہ خود اس فساد کے بدترین شکار تھے۔
دہلی پولیس کے ترجمان انیل متل نے تعصب کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے منصفانہ سلوک کیا ہے ۔
متل نے کہا ، "ہم نے 752 ایف آئی آر درج کیں ، 200 سے زائد چارج شیٹ اور فسادات کے سلسلے میں 1400 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے ۔ ہم نے خصوصی تحقیقاتی ٹیمیں بھی تشکیل دی ہیں اور اب بھی شکایات موصول ہونے کے دروازے کھلے ہیں۔"
وزیر اعظم مودی کی بی جے پی حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ" ہندو پہلے" ہندوستان کو فروغ دے رہی ہے اور شہریت کے قانون کا مقصد ملک کے 170 ملین مسلمانوں کو مزید پسماندہ کرنا ہے۔ جب کہ بی جے پی نے کسی قسم کے تعصب کی تردید کی ہے.
ڈی ایم سی کی رپورٹ میں بی جے پی کے کچھ سینئر رہنماؤں جیسے دہلی کے سابق رکن اسمبلی کپل مشرا پر بھی 23 فروری کو ہونے والے تشدد کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا گیا ، لیکن پارٹی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اس طرح کے الزامات کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
بی جے پی کے ترجمان ہریش کھورانا نے کہا ، "جب دہلی پولیس پہلے ہی عدالت میں یہ کہہ چکی ہے کہ کپل مشرا کا کوئی کردار ثابت نہیں ہوا ہے ، تو پھر ڈی ایم سی کس بنیاد پر یہ کہہ رہی ہے۔"
اقلیتی کمیشن نے کہا کہ گواہان فسادات میں پولیس کی ناکامی کی بات کر رہے ہیں۔
اس میں کہا گیا کہ " فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ذریعہ جمع کردہ متعدد شہادتیں پولیس کی بے عملی کو مستقل آشکارا کرتی ہیں کہ بار بار فون کرنے کے باوجود پولیس نہیں پہنچ رہی تھی۔"
#AljazeeraUrdu
Comments
Post a Comment